سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ
ایسے لوگوں کی مثال بہت بری ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور خود اپنے آپ ہی پر ظلم کرتے رہے
﴿ سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ ﴾” جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں نے اپنا نقصان کیا۔“ یعنی اس شخص کی بہت بری مثال ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی اور مختلف قسم کے گناہ اور معاصی کے ذریعے سے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ پس ان کی مثال بدترین مثال ہے۔ یہ شخص، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا، احتمال ہے کہ اس سے کوئی معین شخص مراد ہو جس سے یہ سب کچھ واقع ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور بندوں کو تنبیہ کے لئے یہ قصہ بیان کیا اور اس میں احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد اسم جنس ہو اور اس کے عموم میں ہر وہ شخص شامل ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا اور ان سے نکل بھاگا ہو۔ ان آیات کریمہ میں علم و عمل کرنے کی ترغیب ہے، نیز یہ کہ علم پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ صاحب علم کو رفعت عطا کرتا اور شیطان سے بچاتا ہے۔ نیز ان آیات کریمہ میں علم پر عدم عمل سے ڈرایا گیا ہے اس لئے کہ اگر علم پر عمل نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ عمل نہ کرنے والے کو اسفل سافلین کے درجے پر اتار دیتا ہے اور اس پر شیطان کو مسلط کردیتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اور شہوات میں دھنس جاتا ہے تو یہ چیز اس بات کا سبب بنتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔