أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
یا یہ کہہ دو کہ : شرک تو ہم سے پہلے ہمارے آباء و اجداد نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد کی اولاد تھے تو کیا ہمیں تو اس قصور میں ہلاک کرتا ہے جو غلط کاروں نے کیا [١٧٦] تھا
﴿إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ﴾’’یہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم ان کے بعد ان کی اولاد ہوئے۔“ پس ہم ان کے نقش قدم پر چلے اور ان کے باطل میں ہم نے ان کی پیروی کی۔ ﴿ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ﴾’’کیا تو ہم کو ایسے فعل پر ہلاک کرتا ہے جو گمراہوں نے کیا“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہاری فطرت میں ایسی چیز ودیعت کردی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ تمہارے آباء واجداد کے پاس تھا وہ باطل تھا اور حق وہ ہے جو انبیاء و مرسلین لے کر آئے ہیں اور یہ حق اس چیز کے خلاف اور اس پر غالب ہے جس پر تم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا۔ ہاں ! کبھی کبھی اپنے گمراہ آباء و اجداد کے بعض ایسے اقوال اور فاسد نظریات بندے کے سامنے آتے ہیں۔ آفاق و انفس میں اس کی آیات سے گریز کرتا ہے۔ اس کا یہ گریز اور اہل باطل کے نظریات کی طرف اس کا متوجہ ہونا اس کو اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں وہ باطل کو حق پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ ان آیات کریمہ کی تفسیر میں یہی قرین صواب ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے جناب آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکال کر ان سے عہد لیا اور ان کو خود ان کی ذات پر گواہ بنایا اور انہوں نے یہ گواہی دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان کو جو حکم دیا تھا اس کو دنیا و آخرت میں ان کے کفر و عناد میں ان کے ظلم کے خلاف ان پر حجت بنایا۔۔۔ مگر آیت کریمہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس قول کی تائید کرتی ہو یا اس سے مناسبت رکھتی ہو۔۔۔ نہ حکمت الٰہی اس کا تقاضا کرتی ہے اور واقعہ اس کا شاہد ہے، اس لئے کہ وہ عہد اور میثاق جس کا یہ لوگ ذکر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکالا اس وقت وہ چیونٹی کی مانند تھی، یہ عہد کسی کو یاد نہیں اور نہ کسی آدمی کے خیال میں اس میثاق کا گزر ہوا ہے۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کسی ایسی چیز کو بندوں کے خلاف کیسے دلیل بنا سکتا ہے جس کی انہیں کوئی خبر نہیں جس کی کوئی حقیقت ہے نہ اثر؟ [آیت ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ۔۔۔﴾ کی تفسیر میں مفسرین کی زیادہ تر دورائے ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے فاضل مفسر رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے کہ ربوبیت الٰہی کا اقرار و اعتراف اور اس کی گواہی سے مراد، توحید الٰہی پر انسان کی تخلیق ہے یعنی ہر انسان کی فطرت میں اللہ کی عظمت و محبت اور اس کی وحدانیت ودیعت کردی گئی ہے، حافظ ابن کثیر کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اس تفسیر کی رو سے عالم واقعات میں ایسا نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ ایک تمثیل ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ تمثیل نہیں ہے۔ بلکہ ایک واقعہ ہے، اللہ تعالیٰ نے صلب آدم سے (براہ راست) پیدا ہونے والے انسانوں کو اور پھر بنی آدم کی صلبوں سے نسلاً بعد نسل پیدا ہونے والے انسانوں کو چیونٹی کی شکل میں نکالا اور ان سے اپنی ربوبیت کا عہد و اقرار لیا۔ اس کی تائید میں بعض صحیح احادیث بھی ہیں اور صحابہ کرام کے آثار وا قوال بھی۔ اس کی مختصر تفصیل تفسیر ”احسن البیان“ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی لئے امام شوکانی نے اسی تفسیر کو راجح اور صحیح قرار دیا ہے۔ بنا بریں فاضل مفسر کا اس دوسری رائے کو یکسر غیر صحیح قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ یہ عہد واقرار کسی کو یاد ہی نہیں ہے تو اس پر گرفت کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے؟ تو یہی اعتراض پہلی تفسیر پر بھی ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کا انسان کی فطرت میں ودیعت کردینا کیا اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ اس کی پابندی کرے، جب کہ اسے اس بات کا شعور و ادراک ہی نہیں ہے؟ اس کی جو توجیہ ہوسکتی ہے، دوسری تفسیر میں بھی وہی توجیہ ہے۔ (ص۔ ی)]