وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب آپ کے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود اپنے اوپر گواہ بنا کر پوچھا : ’’ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟‘‘ وہ (ارواح) کہنے لگیں : ’’کیوں نہیں! [١٧٥] ہم یہ شہادت دیتے ہیں‘‘ (اور یہ اس لیے کیا) کہ قیامت کے دن تم نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس بات سے بالکل بے خبر تھے
یعنی انسانوں کی صلبوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان کے درمیان قرن بعد قرن سلسلہ تناسل وتوالد جاری ہوا۔ ﴿وَ﴾” اور“ جب ان کو ان کی ماؤں کے بطنوں اور ان کے آباؤ کی صلبوں سے نکالا ﴿أَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ ” اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ یعنی ان کی فطرت میں اپنے رب ہونے، ان کا خالق و مالک ہونے کا اقرار ودیعت کر کے اپنی ربوبیت کے اثبات کا اقرار کروایا۔ ﴿قَالُوا بَلَىٰ ﴾ ” انہوں نے کہا ہاں ! ہم نے اقرار کیا“۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے۔ پس ہر شخص کو دین حنیف پر تخلیق کیا گیا ہے۔ مگر عقل پر عقائد فاسدہ کے غلبہ کی وجہ سے کبھی کبھی فطرت میں تغیر و تبدیل واقع ہوجاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ﴾ ” وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔“ یعنی ہم نے تمہارا امتحان لیا حتیٰ کہ تم نے اس بات کا اقرار کیا، جو تمہارے نزدیک ثابت ہے کہ اللہ تمہارا رب ہے اور ہم نے یہ امتحان اس لئے کہ کہیں تم قیامت کے روز انکار نہ کر دو اور کسی بھی چیز کا اقرار نہ کرو اور یہ دعویٰ کرنے لگو کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم نہیں ہوئی اور اس بارے میں تمہارے پاس کوئی علم نہ تھا بلکہ اس بارے میں تم بالکل لاعلم اور غافل تھے۔ پس آج تمہاری حجت منقطع ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی حجت تم پر قائم ہوگئی۔ یا تم ایک اور حجت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہو۔