سورة الاعراف - آیت 164

وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ان میں سے کچھ لوگوں نے دوسروں سے کہا : ’’تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت [١٦٨] کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا : اس لیے کہ ہم تمہارے پروردگار کے ہاں معذرت کرسکیں اور اس لئے بھی کہ شاید وہ نافرمانی سے پرہیز کریں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

(٣) تیسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے انکار کرنے والوں کے انکار ہی کو کافی سمجھا (اور خود خاموش رہے) اور انہوں نے منع کرنے والوں سے کہا :﴿ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّـهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ﴾ ” تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کرتے ہو جن کو اللہ نے ہلاک کرنا یا سخت عذاب دینا ہے“ گویا وہ کہتے تھے کہ ان لوگوں کو نصیحت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کرتے ہیں اور خیر خواہوں کی بات پر کان نہیں دھرتے، بلکہ اس کے برعکس ظلم اور تعددی پر جمے ہوئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ضرور ان کو سزا دے گا یا تو ان کو ہلاک کرے گا یا ان کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ نصیحت کرنے والے کہتے تھے کہ ہم تو ان کو نصیحت کرتے رہیں گے اور ان کو برائیوں سے روکتے رہیں گے۔ ﴿مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ ﴾ ” تاکہ تمہارے رب کے ہاں عذرپیش کرسکیں“﴿وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴾ ” اور شاید کہ وہ پرہیز گار بن جائیں۔“ یعنی شاید وہ اس نافرمانی کو ترک کردیں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں، ہم ان کی ہدایت سے مایوس نہیں ہیں، بسا اوقات ان میں نصیحت کارگر ہوجاتی ہے اور ملامت اثر کر جاتی ہے اور برائی پر نکیر کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معذرت ہو، تاکہ اس شخص پر حجت قائم ہوسکے جسے روکا گیا یا اسے کسی کام کا حکم دیا گیا ہو۔۔۔ اور شاید اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا کر دے اور وہ امرونہی کے تقاضوں پر عمل کرسکے۔