وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ ۖ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ
اور جب ان پر کوئی عذاب [١٣٠] آن پڑتا تو کہتے : ’’موسیٰ ! تیرے پروردگار نے تجھ سے جو (دعا قبول کرنے کا) عہد کیا ہوا ہے تو ہمارے لیے دعا کر۔ اگر تو ہم سے عذاب کو دور کردے گا تو ہم یقیناً تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ روانہ کردیں گے‘‘
﴿وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ ﴾” اور جب ان پر عذاب واقع ہوا“ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد طاعون ہو، جیسا کہ بہت سے مفسرین کی رائے ہے اور اس سے مراد وہ عذاب بھی ہوسکتا ہے جس کا ذکر گزشتہ سطور میں آچکا ہے یعنی طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون، یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب تھیں۔۔۔ یعنی جب ان پر ان میں سے کوئی عذاب نازل ہوتا ﴿قَالُوا يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ﴾ ” تو کہتے اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کر، اس عہد کی وجہ سے جو اللہ نے تجھ سے کیا ہوا ہے“ یعنی وہ موسیٰ علیہ السلام کو سفارشی بناتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وحی اور شریعت کا عہد کر رکھا ہے اور کہتے : ﴿لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” اگر دور کردیا تو نے ہم سے یہ عذاب، تو بے شک ہم ایمان لے آئیں گے تجھ پر اور جانے دیں گے تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو“ وہ اس بارے میں سخت جھوٹے تھے اور اس بات سے ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا کہ ان سے وہ عذاب دور ہوجائے جو ان پر نازل ہوچکا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ جب عذاب ایک بار دور ہوگیا، دوبارہ کوئی عذاب واقع نہیں ہوگا۔