سورة الاعراف - آیت 104

وَقَالَ مُوسَىٰ يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

موسی نے فرعون [١١٠] سے کہا : ’’میں یقیناً اللہ رب العالمین کا رسول ہوں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَقَالَ مُوسَىٰ﴾ ” موسیٰ نے فرمایا“ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے پاس آکر اسے ایمان کی دعوت دی اور فرمایا : ﴿ يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” اے فرعون میں رب العالمین کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں“ یعنی وہ ایک عظیم ہستی کی طرف سے بھیجا گیا رسول ہوں جو عالم علوی اور عالم سفلی تمام جہانوں کا رب ہے جو مختلف تدابیر الٰہیہ کے ذریعے سے تمام مخلوق کی تربیت کرتا ہے۔ ان جملہ تدابیر میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو مہمل نہیں چھوڑتا بلکہ وہ انبیاء و مرسلین کو خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر ان کی طرف مبعوث کرتا ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ اسے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے درآں حالیکہ اسے رسول نہ بنایا گیا ہو۔ جب اس عظیم ہستی کی یہ شان ہے اور اس نے مجھے اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے۔ تو مجھ پر فرض ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہ باندھوں او اس کی طرف وہی بات منسوب کروں جو حق ہے اور اگر میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ اور کہوں تو وہ مجھے بہت جلد عذاب میں مبتلا کر دے گا اور وہ مجھے ایسے پکڑے گا جیسے ایک غالب اور قادر ہستی پکڑتی ہے۔ پس یہ امر اس بات کا موجب ہے کہ وہ موسیٰ کی اتباع کریں اور ان کے حکم کی تعمیل کریں، خاص طور پر جبکہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلیل آگئی ہے جو اس حق پر دلالت کرتی ہے جو موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے۔ اس لئے ان پر واجب ہے کہ وہ آنجناب کی رسالت کے مقاصد پر عمل درآمد کریں اس رسالت کے دو عظیم مقاصد ہیں۔ (١) وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں۔ (٢) بنی اسرائیل کو آزاد کردیں جو ایسی قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر فضیلت بخشی ہے۔ جو انبیاء کی اولاد اور یعقوب علیہ السلام کا سلسلہ ہے اور موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔