سورة الاعراف - آیت 58

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور عمدہ زمین اپنے پروردگار کے حکم سے خوب سبزہ اگاتی ہے اور جو خراب ہوتی ہے اس سے جو کچھ تھوڑا بہت نکلتا ہے وہ بھی ناقص ہوتا ہے۔[٦٢] اسی طرح ہم اپنی آیات کو مختلف طریقوں سے ان لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جو شکر بجا لاتے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان مختلف قطعات زمین میں تیں قطعات کا ذکر فرمایا ہے جس پر بارش برستی ہے۔ ﴿وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ﴾” اور جو شہر پاکیزہ ہے“ یعنی جس کی مٹی اور اصل پاکیزہ ہے، جب اس پر بارش اترتی ہے ﴿ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ﴾ ” اس کا سبزہ نکلتا ہے“ جو اس کے لئے تیار ہوتی ہے ﴿ بِإِذْنِ رَبِّهِ﴾” اس کے رب کے حکم سے“ یہ نباتات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے ظاہر ہوتی ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو تو اشیا کے وجود میں اسباب کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔ ﴿وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا﴾” اور جو خراب زمین ہے اس میں سے خراب اور حسیس نباتات ہی نکلتی ہیں“ جس میں کوئی فائدہ اور کوئی برکت نہیں ہوتی۔﴿كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ﴾ ”اسی طرح ہم آیتوں کو شکر گزار لوگوں کے لئے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں۔“ یعنی ہم آیات کی مختلف انواع اور مثالیں ان لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اقرار کر کے اس کے شکر گزار ہوتے ہیں اور ان نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق تصرف کرتے ہیں۔ پس یہی لوگ ہیں جو ان احکام اور مطالب الٰہیہ سے مستفید ہوتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تفصیل بیان کی ہے کیونکہ وہ ان احکام الٰہیہ کو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت خیال کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس پہنچی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس نعمت کا محتاج سمجھتے ہوئے اسے خوشی خوشی قبول کرتے ہیں اور ان احکام میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی استعداد کے مطابق ان کے سامنے ان احکام کے معانی بیان کردیتا ہے۔ یہ دلوں کے لئے ایک مثال ہے جب ان پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے یہ مادہ حیات ہے اور بادل بارش کا مادہ ہے۔ قلوب طاہرہ کے پاس جب وحی آتی ہے تو اسے قبول کرتے ہیں اور اسے سیکھتے ہیں اور اپنی فطرت کی پاکیزگی اور اپنے عنصر کی اچھائی کے مطابق نشو و نما پاتے ہیں۔ قلوب خبیثہ جن میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی جب ان کے پاس وحی آتی ہے تو وہ قابل قبول مقام و محل نہیں پاتی بلکہ وہ انہیں غافل اور روگرداں یا مخالفت کرنے والے پاتی ہے۔ پس اس کی مثال اس بارش کی مانند ہے جو شور زدہ زمین، ریت کے ٹیلوں اور چٹانوں پر برستی ہے تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا﴾(الرعد:13؍17) الخ ” اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنے اپنے اندازے کے مطابق ندی نالے بہہ نکلے اور پانی نے پھولا ہوا جھاگ اٹھایا۔ “