سورة الاعراف - آیت 57

وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

وہی تو ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پیشتر ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر بھیجتا ہے حتیٰ کہ وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم ان بادلوں کو کسی مردہ علاقہ کی طرف چلاتے ہیں پھر اس سے بارش برساتے ہیں تو اسی مردہ زمین سے ہر طرح کے پھل نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو (بھی زمین سے) نکال کھڑا کریں گے۔[٦١] شاید (اس مشاہدے سے) تم کچھ نصیحت حاصل کرو

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرت اور رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:﴿ وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ﴾” اور وہی ہے جو چلاتا ہے ہوائیں خوشخبری لانے والی اس کی رحمت (بارش) سے پہلے“ یعنی وہ ہوائیں جو بارش کی خوشخبری دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے بادلوں کو زمین سے اٹھاتی ہیں اور مخلوق اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے اور اس کے برسنے سے قبل ان کے دلوں میں خوشی کے کنول کھل اٹھتے ہیں۔﴿حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ﴾ ” یہاں تک کہ جب وہ اٹھا لاتی ہیں“ یعنی ہوائیں ﴿ سَحَابًا ثِقَالًا﴾” بھاری بادلوں کو“ بعض ہوائیں ان بادلوں کو اٹھاتی ہیں، بعض دوسری ہوائیں ان کو اکٹھا کرتی ہیں اور کچھ ہوائیں ان کو بار دار کرتی ہیں﴿سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ﴾ ” تو ہانک دیتے ہیں ہم اس (بادل) کو ایک مردہ شہر کی طرف“ اس علاقے کے حیوانات ہلاکت کے قریب اور وہاں کے باسی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو چکے تھے ﴿فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ﴾ ” پھر اس (بادل) سے مینہ برساتے ہیں۔“ یعنی اس بادل کے ذریعے سے ہم نے اس مردہ زمین پر خوب پانی برسایا، اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا کو مسخر کیا جو بادلوں کو پانی سے لبریز کرتی ہے اور دوسری ہوا اللہ کے حکم سے ان بادلوں کو لخت لخت کر کے بکھیرتی ہے ﴿فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ﴾” پھر نکالتے ہیں ہم اس سے ہر طرح کے پھل“ پس وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر خوش ہوجاتے ہیں اور اس کی بھلائی سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ﴿ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾’’اسی طرح ہم نکالیں گے مردوں کو تاکہ تم نصیحت پکڑو“ یعنی جس طرح ہم نے زمین کے مردہ ہونے کے بعد اس کو نباتات کے ذریعے سے زندہ کیا اسی طرح ہم مردوں کو، جب وہ اپنی قبروں میں ریزہ ریزہ ہو کر مٹی بن چکے ہوں گے، زندہ کریں گے۔ یہ استدلال بہت واضح ہے دونوں امور میں کوئی فرق نہیں۔ زندگی بعد موت کو بعید سمجھتے ہوئے اس کا انکار کرنا۔۔۔ حالانکہ اس کا انکار کرنے والا اس کے نظائر کا مشاہدہ کرتا ہے۔۔۔ عناد اور محسوسات کے انکار کے زمرے میں آتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو چشم غفلت سے دیکھنے کی بجائے چشم عبرت سے ان میں غور کرنے اور تدبر و تفکر کی ترغیب دی گئی ہے۔