سورة البقرة - آیت 2

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک [٢] کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں ان ڈرنے والوں کے لیے ہدایت [٣] ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ذٰلِكَ الْكِتَابُ﴾ یعنی یہ کتاب عظیم ہی درحقیقت کتاب کہلانے کی مستحق ہے جو بہت بڑے علم اور واضح حق جیسے امور پر مشتمل ہے جو پہلے انبیاء کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ﴿لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ﴾ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک نہیں۔ اس کتاب عظیم کے بارے میں شک و شبہ کی نفی اس کی ضد کو مستلزم ہے، جبکہ شک و شبہ کی ضدیقین ہے۔ پس یہ کتاب ایسے علم یقینی پر مشتمل ہے جو شکوک و شبہات کو زائل کرنے والا ہے یہ ایک نہایت مفید قاعدہ ہے کہ نفی سے مقصود مدح ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ اس کی ضد کو متضمن ہو اور وہ ہے کمال۔ کیونکہ نفی عدم محض ہوتی ہے اور عدم محض میں کوئی مدح نہیں ہے۔ جب یہ کتاب عظیم یقین پر مشتمل ہے اور ہدایت صرف یقین ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے تو فرمایا : ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ ” متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔“ (اَلْهُدٰي) وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے گمراہی اور شبہات کی تاریکی میں راہ نمائی حاصل ہو اور جو فائدہ مند راستوں پر گامزن ہونے میں راہنمائی کرے اور اللہ تعالیٰ نے لفظ ﴿ هُدًى ﴾ استعمال کیا ہے اور اس میں معمول کو حذف کردیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ فلاں مصلحت اور فلاں چیز کی طرف راہنمائی (ہدایت) ہے۔ کیونکہ اس سے عموم مراد ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب دنیا و آخرت کے تمام مصالح کی طرف راہنمائی ہے، لہٰذا یہ تمام اصولی اور فروعی مسائل میں بندوں کی راہنما ہے، باطل میں سے حق کو اور ضعیف میں سے صحیح کو واضح کرتی ہے، نیز بندوں کے سامنے بیان کرتی ہے کہ دنیا و آخرت کے لئے فائدہ مند راستوں پر انہیں کیسے چلنا چاہئے۔ ایک دوسرے مقام پر ﴿هُدًي لِّلنَّاسِ﴾ (البقرہ : 2؍581) ” تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے“ فرما کر اس کو عام کردیا۔ اس مقام پر اور بعض دیگر مقامات پر فرمایا : ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ کیونکہ یہ فی نفسہ تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے، لیکن چونکہ بدبخت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی قبول نہیں کرتے، اس لئے اس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہوگئی ہے کہ انہوں نے اپنی بدبختی کے سبب سے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ رہے متقی لوگ تو انہوں نے حصول ہدایت کے لئے سب سے بڑا سبب پیش کیا ہے اور وہ ہے تقویٰ اور تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت اور اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے ایسے امور کو اختیار کرنا جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچاتے ہیں۔ پس اہل تقویٰ نے اس کتاب کے ذریعے سے راہ پائی اور اس سے بے انتہا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا﴾ (الانفال ٨؍٩2) ” اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے ایک کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔“ پس اصحاب تقویٰ ہی آیات قرآنیہ (احکام الٰہیہ) اور آیات کونیہ (قدرت کی نشانیوں) سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لئے کہ ہدایت کی دو قسمیں ہیں : (١) ہدایت بیان (2) ہدایت توفیق۔ متقی لوگ ہدایت کی دونوں اقسام سے بہرہ مند ہوتے ہیں ان کے علاوہ دیگر لوگ ہدایت توفیق سے محروم رہتے ہیں اور ہدایت بیان، توفیق عمل کی ہدایت کے بغیر، حقیقی اور کامل ہدایت نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ کے عقائد، اعمال باطنہ اور اعمال ظاہرہ کا بیان فرمایا ہے، کیونکہ تقویٰ ان امور کو متضمن ہے۔