بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
(شروع) اللہ کے نام [٢] سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ [٣]
یعنی میں اللہ تعالیٰ کے ہر نام سے ابتدا کرتا ہوں کیونکہ لفظ ” اسم“ مفرد اور مضاف ہے جو تمام اسمائے حسنی کو شامل ہے۔ ﴿اللّٰہ﴾ وہ ذات ہے جو بندگی کے قابل اور معبود ہے، وہ اکیلا ہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ الوہیت کی صفات سے متصف ہے اور وہ صفات کمال ہیں۔ ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ﴾ دو نام ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بے پایاں اور عظیم رحمت کا مالک ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر زندہ چیز کے لئے عام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ اور اپنے انبیاء و رسل کے پیروکاروں کے لئے اس رحمت کو لازم کردیا ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے رحمت مطلقہ ہے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے اس کی رحمت میں سے کچھ حصہ ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور احکام صفات پر ایمان لانا ایمانیات کے ان قواعد میں شمار ہوتا ہے جن پر تمام سلف اور ائمہ امت متفق ہیں، مثلاً وہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے، رحیم ہے اور رحمت کا مالک ہے جس سے وہ متصف ہے اور اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن پر رحم کیا جاتا ہے۔ پس تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار ہیں اور یہی اصول تمام اسمائے حسنیٰ میں جاری ہے جیسے (الْعَلِيمُ) کے بارے میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ علیم اور صاحب علم ہےاور اس علم کے ذریعے سے ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ (قَدِیْر) یعنی صاحب قدرت ہے، ہر چیز پر قادر ہے۔