سورة الاعراف - آیت 34

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ہر گروہ کے لیے ایک مدت مقرر ہے، جب وہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو پھر (اس گروہ کی گرفت کے لیے) ایک گھڑی بھر کی بھی تقدیم و تاخیر [٣٤] نہیں ہوسکتی

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- میعاد معین سے مراد وہ مہلت عمل ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ ہر گروہ کو آزمانے کے لئے عطا فرماتا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بغاوت وسرکشی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مہلت بعض دفعہ ان کی پوری زندگیوں تک ممتد ہوتی ہے۔ یعنی دنیوی زندگی میں وہ گرفت نہیں فرماتا بلکہ صرف آخرت میں ہی وہ سزا دے گا ان کی اجل مسمی قیامت کا دن ہی ہے اور جن کو دنیا میں وہ عذاب سے دوچار کر دیتا ہے، ان کی اجل مسمیٰ وہ ہے جب ان کا مواخذہ فرماتا ہے۔