يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت بھی ہے [٢٣] اور لباس تو تقویٰ ہی کا بہتر [٢٤] ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ شاید لوگ کچھ سبق حاصل کریں
1- ”سَوْآتٌ“ جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے۔ جیسے شرم گاہ اور ”رِيشًا“ وہ لباس جو حسن ورعنائی کے لئے پہنا جائے۔ گویا لباس کی پہلی قسم ضروریات سے اور دوسری قسم تکملہ واضافہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسموں کے لباس کے لئے سامان اور مواد پیدا فرمایا۔ 2- اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان، بعض کے نزدیک عمل صالح، خشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریباً ایک ہے کہ ایسا لباس، جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کے بجائے، اللہ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔ 3- اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ زیب و زینت اور آرائش کے لئے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے۔ تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد وورع اور تقویٰ کی مظہر ہو۔ علاوہ ازیں نیا لباس پہن کر یہ دعا بھی پڑھی جائے، کیونکہ نبی (ﷺ) یہ دعا پڑھا کرتے تھے [ الْحَمْدُ للهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي ] (ترمذي ، أبواب الدعوات - ابن ماجہ ، كتاب اللباس ، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبا جديدا) ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس سے میں اپنا ستر چھپالوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں“۔