سورة البقرة - آیت 89

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایسی کتاب آ گئی جو اس کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے جو ان (یہود) کے پاس ہے اور اس سے پیشتر وہ کفار کے مقابلہ میں (آنے والے نبی کے ذریعہ سے) فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، تو جب ان کے پاس وہ چیز (کتاب یا رسول، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ گئی، جسے انہوں نے پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کردیا۔ [١٠٥] سو ایسے کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-﴿يَسْتَفْتِحُونَ﴾ کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہ یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے، یااللہ آخری نبی جلد مبعوث فرما، تاکہ اس سے مل کر ہم مشرکین پر غلبہ حاصل کریں یعنی ”اسْتِفْتَاحٌ“ بمعنی ”اسْتِنْصَارٍ“ ہے۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں۔ أَيْ: يُخْبِرُهُمْ بِأَنَّهُ سَيُبْعَثُ۔ یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہوگی۔ (فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔