سورة الانعام - آیت 148

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ مشرک (جواباً) یہ کہہ دیں گے کہ : اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے [١٦٠] اور نہ ہمارے آباؤ اجداد، نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے تھے۔ تاآنکہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزا چکھ لیا۔ آپ ان سے کہئے کہ اگر تمہارے [١٦١] پاس کوئی علم کی بات ہے تو لاؤ ہمیں دکھاؤ'' تم تو محض ظن کے پیچھے پڑے ہوئے ہو اور جو بات کرتے ہو بلادلیل کرتے ہو

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے۔ 2- اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا؟ عذاب الٰہی اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔ 3- یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو! لیکن ان کے پاس دلیل کہاں؟ وہاں تو صرف اوہام وظنون ہی ہیں۔