وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
کہتے ہیں کہ اس اس قسم کے مویشی اور کھیتی ممنوع ہیں۔ انہیں ان کے گمان کے مطابق وہی کھا سکتا ہے جسے وہ چاہیں۔ اور کچھ مویشی ہیں جن کی پشتیں حرام ہیں (ان پر نہ کوئی سوار ہوسکتا ہے نہ بوجھ لاد سکتا ہے) اور کچھ مویشی ایسے ہیں جن پر وہ (ذبح کے وقت) اللہ کا نام نہیں لیتے۔[١٤٨] یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے۔ اور اللہ عنقریب انہیں ان کی افتراء پردازیوں کا بدلہ دے دے گا
1- اس میں ان کی جاہلی شریعت اور اباطیل کی تین صورتیں اور بیان فرمائی ہیں۔ حِجْرٌ( بمعنی منع) اگرچہ مصدر ہے لیکن مفعول یعنی مَحْجُورٌ (ممنوع) کے معنی میں ہے۔ یہ پہلی صورت ہے کہ یہ جانور یا فلاں کھیت کی پیداوار، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے صرف وہی کھائے گا جسے ہم اجازت دیں گے۔ یہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین ہی کے لئے ہوتی۔ 2- یہ دوسری صورت ہے کہ وہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام آزاد چھوڑ دیتے جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہ لیتے۔ جیسے بَحِيرَة، سَائِبَة وغیرہ کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔ 3- یہ تیسری صورت ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے، اللہ کا نام نہ لیتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان جانوروں پر بیٹھ کر وہ حج کے لئے نہ جاتے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن وہ اللہ پر افترا باندھتے یعنی یہ باور کراتے کہ اللہ کے حکم سے ہی ہم سب کچھ کررہے ہیں۔