يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
پھر اللہ ان سے فرمائے گا :’’اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے ہاں تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کرتے اور آج کے دن کی ملاقات [١٣٨] سے تمہیں ڈراتے تھے؟‘‘ وہ کہیں گے ’’ہاں ہم اپنے خلاف خود یہ گواہی دیتے ہیں۔‘‘ بات یہ تھی کہ دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا لہٰذا وہ اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور ہوں گے کہ فی الواقع وہ (اللہ کی آیات کے) منکر تھے
1- رسالت ونبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے پہلے سے ہی ہے تو ان کی ہدایت کے لیے انھیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد ہوسکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم (ﷺ) کی رسالت بہرحال تمام جن وانس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔ 2- میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الانعام: 23) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔