سورة الانعام - آیت 45

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اس طرح ان ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور ہر طرح کی تعریف [٤٨] تو اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ (جس نے ایسے ظالموں کو نیست و نابود کردیا)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اس میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انہیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور ان کی جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (ڈھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔“ (مسند أحمد، جلد 4، صفحہ 145) قرآن کریم کی اس آیت اور حدیث نبوی (ﷺ) سے معلوم ہوا کہ دنیوی ترقی اور خوش حالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے، جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انہیں ﴿أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾ (الأنبياء: 105) کا مصداق قرار دے کر انہیں (اللہ کے نیک بندے) تک قرار دیتے ہیں۔ ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے، گمراہ قوموں یا افراد کی دنیوی خوش حالی، ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر ومعاصی کا صلہ ہے۔