سورة الانعام - آیت 31

قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلاشبہ جن لوگوں نے اللہ سے ملاقات (کی حقیقت) کو جھٹلایا وہ نقصان میں رہے حتیٰ کہ جب قیامت اچانک انہیں آ لے گی تو کہیں گے: افسوس اس معاملہ میں ہم سے کیسی تقصیر ہوئی۔ اس وقت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ [٣٥] اپنی پشتوں پر لادے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا برا بوجھ ہے جو وہ اٹھائیں گے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دوچار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے ”فَرَّطْنَا فِيهَا“ میں ضمیر ”الساعۃ“ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی۔ یا ”الصَّفْقَةُ“ (سودا) کی طرف راجع ہے، جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے۔ اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا۔ یعنی یہ سودا کرکے ہم نے سخت کوتاہی کی، یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر وشرک کا ارتکاب کرکے جو کوتاہیاں کیں۔ (فتح القدیر )