سورة النسآء - آیت 157

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز یہ کہنے کی وجہ سے کہ ’’ہم نے اللہ کے رسول [٢٠٧] مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر ڈالا ہے۔‘‘ حالانکہ انہوں نے اسے نہ تو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا بلکہ یہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا تھا۔ اور جن لوگوں نے اس معاملہ میں اختلاف کیا وہ خود بھی شک میں مبتلا ہیں۔ انہیں حقیقت حال کا کچھ علم نہیں محض ظن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو قتل نہیں کیا تھا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہوسکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 55 کے حاشیے میں مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔ 2- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا توانہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد 12 یا 17 تھی، جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنا دی جائے۔ ایک نوجوان اس کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی پر چڑھا دیا جسے حضرت عیسیٰ کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دی ہے درآں حالیکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جا چکے تھے۔(ابن کثیر و فتح القدیر) 3- عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا، جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہوگیا کہ مصلوب شخص عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں، کوئی اور ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور مصلوب ہونے کا انکار کرتا رہا۔ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے نسطوریہ فرقے نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جسم کے لحاظ سے تو سولی دے دیئے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا کہ یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف، تردد اورشک کا شکار رہے۔