إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ
کہ وہ سردیوں اور گرمیوں میں (تجارتی) سفر سے مانوس ہوگئے تھے
1- إِيلافٌ کے معنی ہیں، مانوس اور عادی ہونا، یعنی اس کام سے کلفت اور نفرت کا دور ہو جانا۔ قریش کی گزر ان کا ذریعہ تجارت تھی۔ سال میں دو مرتبہ ان کا تجارتی قافلہ باہر جاتا اور وہاں سے اشیاء تجارت لاتا۔ سردیوں میں یمن، جو گرم علاقہ تھا اور گرمیوں میں شام کی طرف جو ٹھنڈا تھا۔ خانہ کعبہ کے خدمت گزار ہونے کی وجہ سے تمام اہل عرب ان کی عزت کرتے تھے، اس لئے ان کے قافلے بلا روک ٹوک سفر کرتے، اللہ تعالیٰ اس سورت میں قریش کو بتلا رہا ہے کہ تم جو گرمی، سردی میں دو سفر کرتے ہو تو ہمارے اس احسان کی وجہ سے کہ ہم نے تمہیں مکے میں امن عطا کیا ہے اور اہل عرب میں معزز بنایا ہوا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو تمہارا سفر ممکن نہ ہوتا۔ اور اصحاب الفیل کو بھی ہم نے اسی لئے تباہ کیا ہے کہ تمہاری عزت بھی برقرار رہے اور تمہارے سفروں کا سلسلہ بھی، جس کے تم خوگر ہو، قائم رہے، اگر ابرہہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہو جاتا تو تمہاری عزت وسیادت بھی ختم ہو جاتی اور سلسلہ سفر بھی منقطع ہو جاتا۔ اس لئے تمہیں چاہئے کہ صرف اسی بیت اللہ کے رب کی عبادت کرو۔