فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ
تو ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیں [٣] گے
1- عُسْرَى( تنگی ) سےمراد کفر ومعصیت اور طریق شر ہے۔ یعنی ہم اس کے لئے نافرمانی کا راستہ آسان کر دیں گے، جس سے اس کے لئے خیر وسعادت کے راستے مشکل ہو جائیں گے۔ قرآن مجید میں یہ مضمون کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ جو خیر ورشد کا راستہ اپناتا ہے، اس کے صلے میں اللہ اسے خیر کی توفیق سے نوازتا ہے اور جو شر ومعصیت کو اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑدیتا ہے اور یہ اس تقدیر کے مطابق ہی ہوتا ہے جو اللہ نے اپنے علم سے لکھ رکھی ہے۔ ( ابن کثیر ) یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا تم عمل کرو، ہر شخص جس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے، وہ اس کے لئے آسان کر دیا جاتا ہے، جو اہل سعادت سے ہوتا ہے، اسے اہل سعادت والے عمل کی توفیق دے دی جاتی ہے اور جو اہل شقاوت سے ہوتا ہے، اس کے لئے اہل شقاوت والے عمل آسان کر دیئے جاتے ہیں۔ (صحيح البخاری، تفسير سورة الليل )