فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
(مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے [١٢١] بارے میں دو گروہ بن گئے۔ حالانکہ اللہ نے انہیں انکے اعمال کی بدولت [١٢٢] اوندھا کردیا ہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جسے اللہ نے گمراہ کیا ہے، اسے راہ راست پر لے آؤ؟ حالانکہ جسے اللہ گمراہ کردے آپ اس کے لیے کوئی راہ نہیں پاسکتے
1- یہ استفہام انکار کے لئے ہے، یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، کہ ہماری بات نہیں مانی گئی۔ (صحیح بخاری سورۃ النساء، صحیح مسلم) کتاب المنافقین جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے۔ دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔ 2- ”كَسَبُوا“ (اعمال) سے مراد، رسول کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے ”أَرْكَسَهُمْ“ اوندھا کر دیا۔ یعنی جس کفر وضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلاکر دیا، یا اس کے سبب ہلاک کر دیا۔ 3- جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر وعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کر سکتا۔