وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر ان تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً اڑا دیتے ہیں۔ اور اگر وہ اسے رسول یا آپ نے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اس سے صحیح نتیجہ [١١٥] اخذ کرسکتے ہیں۔ اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت [١١٦] تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم ماسوائے چند لوگوں کے شیطان کے پیچھے لگ جاتے
1- یہ بعض کمزور اورجلد باز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت وشکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل وہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے)، اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول (ﷺ) کے پاس پہنچا دو یا اہل علم وتحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بے خبر رہنا نفع ہے؟ یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم اور نہایت مفید ہے لیکن عین حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت وافادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ ”اسْتِنْبَاطٌ“ کا مادہ نَبْطٌ ہے نَبْطٌ اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے اسی لئے اسْتِنْبَاطٌ تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر )