سورة الإنسان - آیت 1
هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا
ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب
کیا انسان پر لامتناہی زمانہ [١] سے ایک وقت ایسا بھی آیا ہے جب کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ؟
تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
1- ھل بمعنی قد ہے جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، الانسان سے مراد 'بعض کے نزدیک ابو البشر یعنی انسان اول حضرت آدم ہیں اور حِیْن (ایک وقت) سے مراد، روح پھونکے جانے سے پہلے کا زمانہ ہے، جو چالیس سال ہے اور اکثر مفسرین کے نزدیک الانسان کا لفظ بطور جنس کے استعمال ہوا ہے اور حِیْن، سے مراد حمل یعنی رحم مادر کی مدت ہے جس میں وہ قابل ذکر چیز نہیں ہوتا۔ اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن وجمال کی صورت میں جب باہر آتا ہے تو رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں جب میں عالم نیست میں تھا، تو مجھے کون جانتا تھا؟