سورة النسآء - آیت 66

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر ہم ان پر واجب کردیتے کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں یا اپنے گھروں سے نکل جائیں تو ماسوائے چند آدمیوں کے ان میں سے کوئی بھی ایسا [٩٨] نہ کرتا۔ اور اگر وہ وہی کچھ کرلیتے جو انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب بن جاتی

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- آیت میں انہی نافرمان قسم کے لوگوں کی جبلت رویہ کی طرف اشارہ کرکے کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں حکم دیا جاتا کہ ایک دوسرے کو قتل کرویا اپنے گھرں سے نکل جاؤ تو، جب یہ آسان باتوں پر عمل نہیں کر سکے تو اس پرعمل کس طرح کر سکتے تھے؟ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق ان کی بابت فرمایا ہے جو یقیناً واقعات کے مطابق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخت حکموں پر عمل تو یقیناً مشکل ہے لیکن اللہ تعالیٰ بہت شفیق اور مہربان ہے، اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لئے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جن کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لئے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہو۔ کیونکہ ایمان اطاعت سے زیادہ اور معصیت سے کم ہوتا ہے۔ نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا اور بدی سے بدی متولد ہوتی ہے۔ یعنی اسکا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔