قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا
آپ کہہ دیجئے کہ : مجھے وحی [١] کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے (اس قرآن کو) غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم سے) کہا کہ : ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے۔
1- یہ واقعہ سورۂ احقاف:29 کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ نبی (ﷺ) وادی نخلہ میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ جنوں کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپ (ﷺ) کا قرآن سنا۔ جس سے وہ متاثر ہوئے۔ یہاں بتلایا جا رہا ہے کہ اس وقت جنوں کا قرآن سننا، آپ کے علم میں نہیں آیا، بلکہ وحی کے ذریعے سے ان کو اس سے آگاہ فرمایا گیا۔ 2- عجبا 'مصدر ہے بطور مبالغہ یا مضاف محذوف ہے۔ ذا عجب یا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے معجبا مطلب کہ ہم نے ایسا قرآن سنا ہے جو فصاحت وبلاغت میں بڑا عجیب ہے یا مواعظ کے اعتبار سے عجیب ہے یا برکت کے لحاظ نہایت تعجب انگیز ہے ۔(فتح القدیر)