سورة النسآء - آیت 50

انظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَكَفَىٰ بِهِ إِثْمًا مُّبِينًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

دیکھئے! یہ لوگ خود ساختہ جھوٹ کو اللہ کے ذمہ لگا دیتے ہیں اور یہی ایک گناہ انکے صریح گناہگار [٨٢] ہونے پر کافی (دلیل) ہے

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یعنی مذکورہ دعوائے تزکیہ کرکے۔ ** یعنی ان کی یہ حرکت اپنی پاکیزگی کا ادعا ان کے کذب وافترا کے لئے کافی ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت اور اس کی شان نزول کی روایات سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کی مدح وتوصیف بالخصوص تزکیہ نفوس کا دعویٰ کرنا صحیح اور جائز نہیں۔ اسی بات کو قرآن کریم کے دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا گیا۔ ﴿فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى﴾ (النجم: 32) ”اپنے نفسوں کی پاکیزگی اور ستائش مت کرو، اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، تم میں متقی کون ہے؟“ حدیث میں ہے حضرت مقداد (رضي الله عنه) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پرمٹی ڈال دیں [ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ ] ( صحیح مسلم، کتاب الزھد) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک آدمی کو ایک دوسرے آدمی کی تعریف کرتے سنا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: [ وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ ] ”افسوس ہے تچھ پر تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی“ پھر فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو کسی کا لامحالہ تعریف کرنی ہے تو اس طرح کہا کرے ”أَحْسِبُهُ کذا“ میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں، اللہ پر کسی کا تزکیہ بیان نہ کرے (صحيح بخاري كتاب الشهادات والأدب- مسلم كتاب الزهد)