يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے ایمان والو! نشے کی حالت میں [٧٥] نماز کے قریب تک نہ جاؤ تاآنکہ تمہیں یہ معلوم ہوسکے کہ تم نماز میں کہہ کیا رہے ہو۔ اور نہ ہی جنبی نہائے بغیر نماز کے قریب جائے الا یہ کہ وہ راہ طے کر رہا ہو۔ اور اگر بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئے یا تم نے اپنی بیویوں کو چھوا ہو، پھر تمہیں پانی نہ ملے تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا [٧٦] مسح کرلو (اور نماز ادا کرلو) یقیناً اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشنے والا ہے۔
1- یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا کہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ترمذی، تفسیر سورۃ النساء) جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھا کرو، گویا اس وقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ (یہ شراب کی بابت دوسرا حکم ہے جو مشروط ہے ) 2- یعنی ناپاکی کی حالت میں بھی نماز مت پڑھو۔ کیونکہ نماز کے لئے طہارت ضروری ہے۔ 3- اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافری کی حالت میں اگر پانی نہ ملے تو جنابت کی حالت میں نماز پڑھ لو (جیسا کہ بعض نے کہا ہے) بلکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں تم مسجد کے اندر مت بیٹھو، البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی ضرورت پڑےتو گزر سکتے ہو بعض صحابہ کے مکان اس طرح تھے کہ انہیں ہر صورت میں مسجد نبوی کے اندر سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ یہ رخصت ان ہی کے پیش نظر دی گئی ہے۔ (ابن کثیر) ورنہ مسافر کا حکم آگے آرہا ہے۔ 4- (أ) بیمار سے مراد، وہ بیمار ہے جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو۔ (ب) مسافر عام ہے، لمبا سفر کیا ہو یا مختصر۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت تو مقیم کو بھی حاصل ہے، لیکن بیمار اور مسافر کو چونکہ اس قسم کی ضرورت عام طور پر پیش آتی تھی اس لئے بطور خاص اس کے لئےاجازت بیان کر دی گئی ہے۔ (ج) قضائے حاجت سے آنے والا۔ (د) اور بیوی سے مباشرت کرنے والا، ان کو بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیرلے۔ (کہنیوں تک ضروری نہیں) اور منہ پر بھی پھیر لے قَالَ فِي التَّيَمُّمِ: ”ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ“ (مسند أحمد- عماررضی اللہ عنہ جلد 4 صفحہ 263) نبی (ﷺ) نے تیمم کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لئے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے۔ ﴿صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ سے مراد ”پاک مٹی“ ہے۔ زمین سے نکلنے والی ہر چیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے۔ [ جُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ ]، (صحيح مسلم- كتاب المساجد) ”جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لئے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے“۔