فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا
(ذرا سوچو) اس وقت ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک [٧٣] گواہ لائیں گے، پھر ان گواہوں پر (اے نبی آپ کو گواہ بنا دیں گے
1- ہر امت میں سے اس کا پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ یااللہ ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور ؟ پھر ان سب پر نبی کریم (ﷺ) گواہی دیں گے کہ یا اللہ! یہ سچے ہیں۔ آپ (ﷺ) یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ (ﷺ) پر نازل ہوا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کر دینے والا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (ﷺ) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی، وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”بس، اب کافی ہے“۔ حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا تو آپ (ﷺ) کی دونوں آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔ (صحيح بخاري، فضائل القرآن) بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس لئے وہ شہید (گواہ) کے معنی حاضر ناظر کے کرتے ہیں اور یوں نبی (ﷺ) کو حاضر ناظر باور کراتے ہیں۔ لیکن نبی (ﷺ) کو حاضر ناظر سمجھنا، یہ آپ (ﷺ) کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے جو شرک ہے کیونکہ حاضر وناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن میں بیان کردہ حقائق وواقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہو سکتا ہے؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے ﴿شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لئے حاضر وناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر وناظر ماننا پڑے گا۔ بہرحال نبی (ﷺ) کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ