وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ
اور مریم بنت عمران کی (بھی مثال پیش کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت [٢٤] کی حفاظت کی تھی۔ پھر ہم نے اس کے اندر اپنی ایک روح [٢٥] پھونک دی اور اس نے اپنے پروردگار کے کلموں [٢٦] کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ عبادت میں ہمہ تن مصروف [٢٧] رہنے والوں سے تھی۔
1- حضرت مریم علیہا السلام کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ باوجود اس بات کے کہ وہ ایک بگڑی ہوئی قوم کے درمیان رہتی تھی، لیکن اللہ نے انہیں دنیا وآخرت میں شرف وکرامت سے سرفراز فرمایا اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ 2- کلمات رب سے مراد شرائع الہی ہیں۔ 3- یعنی ایسے لوگوں میں سے یا خاندان میں سے تھیں جو فرماں بردار عبادت گزار اور صلاح واطاعت میں ممتاز تھا حدیث میں ہے جنتی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ ہیں رضی اللہ عنہن۔ (مسند احمد) ایک دوسری حدیث میں فرمایا مردوں میں تو کامل بہت ہوئے ہیں مگر عورتوں میں کامل صرف فرعون کی بیوی آسیہ مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد (رضی اللہ عنہن) ہیں اور عائشہ (رضی الله عنہا) کی فضلیت عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضلیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری۔