يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! تمہاری بیویوں میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض [٢١] تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے ہشیار رہو۔ اور اگر تم معاف کرو [٢٢] اور درگزر کرو اور انہیں بخش دو تو اللہ یقیناً بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے
1- یعنی جو تمہیں عمل صالح اور اطاعت الٰہی سے روکیں، سمجھ لو وہ تمہارے خیر خواہ نہیں، دشمن ہیں۔ 2- یعنی ان کے پیچھے لگنے سے بچو۔ بلکہ انہیں اپنے پیچھے لگاؤ تاکہ وہ بھی اطاعت الٰہی اختیار کریں، نہ کہ تم ان کے پیچھے لگ کر اپنی عاقبت خراب کرلو۔ 3- اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مکے میں مسلمان ہونے والے بعض مسلمانوں نے مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کا ارادہ کیا، جیسا کہ اس وقت ہجرت کا حکم نہایت تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا۔ لیکن ان کے بیوی بچے آڑے آگئے اور انہوں نے انہیں ہجرت نہیں کرنے دی۔ پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آ گئے تو دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں نے دین میں بہت زیادہ سمجھ حاصل کرلی ہے تو انہیں اپنے بیوی بچوں پر غصہ آیا، جنہوں نے انہیں ہجرت سے روکے رکھا تھا، چنانچہ انہوں نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ نے اس میں انہیں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی تلقین فرمائی۔ (سنن الترمذی، تفسير سورة التغابن)۔