سورة التغابن - آیت 6

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوا ۚ وَّاسْتَغْنَى اللَّهُ ۚ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل [١١] لے کر آئے تو وہ کہنے لگے : کیا آدمی ہماری رہنمائی [١٢] کریں گے'' چنانچہ انہوں نے انکار کردیا اور منہ موڑ لیا اور اللہ بھی ان سے بے پروا [١٣] ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں محمود

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ذَلِكَ ،یہ اشارہ ہے اس عذاب کی طرف، جو دنیا میں انہیں ملا اور آخرت میں بھی انہیں ملے گا۔ 2- یہ ان کے کفر کی علت ہے کہ انہوں نے یہ کفر، جو ان کے عذاب دارین کا باعث بنا ، اس لیے اختیار کیا کہ انہوں نے ایک بشر کو اپنا ہادی ماننے سے انکار کر دیا۔ یعنی ایک انسان کا رسول بن کر لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آنا، ان کے لیے ناقابل قبول تھا جیسا کہ آج بھی اہل بدعت کے لیے رسول کو بشر ماننا نہایت گراں ہے۔ هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى۔ 3- چنانچہ اس بنا پر انہوں نے رسولوں کو رسول ماننے سے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ 4- یعنی ان سے اعراض کیا اور جو دعوت وہ پیش کرتے تھے ، اس پر انہوں نے غور وتدبر ہی نہیں کیا۔ 5- یعنی ان کے ایمان اور ان کی عبادت سے۔ 6- اس کو کسی کی عبادت سے کیا فائدہ اور اس کی عبادت سے انکار کرنے سے کیا نقصان؟ 7- یا محمود ہے (تعریف کیا گیا) تمام مخلوقات کی طرف سے۔ یعنی ہر مخلوق زبان حال وقال سے اس کی حمد وتعریف میں رطب اللسان ہے۔