وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ
اور جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے۔ اس میں سے وہ وقت آنے سے پہلے پہلے خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو کہنے لگے : اے میرے پروردگار! تو نے مجھے تھوڑی مدت اور کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ کرلیتا [١٥] اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا
1- خرچ کرنے سے مراد زکٰوۃ کی ادائیگی اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا ہے۔ 2- اس سے معلوم ہوا کہ زکٰوۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں اور اسی طرح اگر حج کی استطاعت ہو تو اس کی ادائیگی میں قطعاً تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کس وقت آجائے؟ اور یہ فرائض اس کے ذمے رہ جائیں کیونکہ موت کے وقت آرزو کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔