لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جونہ تم سے دین کے بارے میں لڑے [١٨] اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، اس بات سے کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو۔ اللہ تو یقیناً انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
1- یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایات دی جارہی ہیں جو مسلمانوں سے محض دین اسلام کی وجہ سے بغض وعداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے۔ 2- یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہو جاؤ۔ یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں۔ مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیاروں وغیرہ کے ذریعے سے۔ 3- یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے۔ جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رضی الله عنہ) نے رسول اللہ (ﷺ) سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا، آپ (ﷺ) نے فرمایا : صِلِي أُمَّكِ (صحيح مسلم ، كتاب الزكاة ، باب فضل النفقة والصدقة على الأقربين .... بخاری كتاب الأدب ، باب صلة الوالد المشرك) ”اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو“۔ 4- اس میں انصاف کرنے کی ترغیب ہے حتیٰ کہ کافروں کے ساتھ بھی۔ حدیث میں انصاف کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے [ إنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ ، عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ - وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ - الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ، وَمَا وَلُوا] (صحيح مسلم ، كتاب الإمارة ، باب فضيلة الإمام العادل ) ”انصا ف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے جو رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے اور رحمٰن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف کا اہتمام کرتے ہیں“۔