سورة الحشر - آیت 9

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (ان لوگوں کے لیے بھی) جو ان (کے آنے) سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور یہاں (دارالہجرت میں) مقیم تھے۔ جو بھی ہجرت کرکے ان کے پاس آئے وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں (مال فے) سے دیا [١١] جائے وہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے اور ان (مہاجرین) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص [١٢] سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ان سے انصار مدینہ مراد ہیں، جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کرکے آنے سے قبل، ایمان بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے ، یہ انصار ایمان لاچکے تھے، کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے۔ یعنی( مِنْ قَبْلِهِمْ ) کا مطلب ( مِنْ قَبْلِ هِجْرَتِهِمْ ) ہے۔ اور دَارٌ سے دَارُ الْهِجْرَةِ یعنی مدینہ مراد ہے۔ 2- یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول (ﷺ) جو کچھ دے، اس پر حسد اور انقباض محسوس نہیں کرتے ، جیسے مال فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔ 3- یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس ایک مہمان آیا، لیکن آپ (ﷺ) کے گھر میں کچھ نہ تھا، چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا، گھر جاکر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے۔ انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے۔ البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں۔ صبح جب وہ صحابی رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (ﷺ) نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ﴾ الآیہ (صحيح بخاری ، تفسير سورة الحشر) ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کرلے۔ (صحيح البخاری ، كتاب النكاح 4- حدیث میں ہے ”شُح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے انہیں خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کر لیا“۔ (صحيح مسلم ، كتاب البر ، تحريم الظلم)