هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
وہی تو ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کافروں [١] کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ تمہیں یہ خیال بھی نہ تھا کہ وہ (اپنے گھروں سے) نکل جائیں گے [٢] اور وہ یہ یقین کئے بیٹھے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں [٣] گے۔ مگر اللہ نے ایسے رخ سے انہیں آلیا جس کا انہیں خواب و خیال بھی نہ تھا۔ اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے اور مسلمانوں کے ہاتھوں بھی کروانے لگے۔ پس اے اہل بصیرت! عبرت حاصل کرو۔
1- مدینے کے اطراف میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے ، بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع۔ ہجرت مدینہ کے بعد نبی (ﷺ) نے ان سے معاہدہ بھی کیا لیکن یہ لوگ درپردہ سازشیں کرتے رہے اور کفار مکہ سے بھی مسلمانوں کے خلاف رابطہ رکھا، حتیٰ کہ ایک موقعے پر جب کہ آپ (ﷺ) ان کے پاس گئے ہوئے تھے ، بنو نضیر نے رسول اللہ (ﷺ) پر اوپر سے ایک بھاری پتھر پھینک کر آپ (ﷺ) کو مار ڈالنے کی سازش تیار کی، جس کی وحی کے ذریعے سے آپ (ﷺ) کو بروقت اطلاع کر دی گئی، اور آپ (ﷺ) وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ ان کی اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہ (ﷺ) نے ان پر لشکر کشی کی، یہ چند دن اپنے قلعوں میں محصور رہے، بالآخر انہوں نے جان بخشی کی صورت میں جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا، جسے رسول اللہ (ﷺ) نے قبول فرما لیا۔ اسے اول حشر (پہلی بار اجتماع) سے اس لیے تعبیر کیا کہ یہ ان کی پہلی جلاوطنی تھی، جو مدینے سے ہوئی، یہاں سے یہ خیبر میں جاکر مقیم ہوگئے، وہاں سے حضرت عمر (رضی الله عنہ) ، نے اپنے دور میں انہیں دوبارہ جلا وطن کیا اور شام کی طرف دھکیل دیا، جہاں کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کا آخری حشر ہوگا۔ 2- اس لیے کہ انہوں نے نہایت مضبوط قلعے تعمیر کر رکھے تھے جس پر انہیں گھمنڈ تھا اور مسلمان بھی سمجھتے تھے کہ اتنی آسانی سے یہ قلعے فتح نہیں ہوسکیں گے۔ 3- اور وہ یہی تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ان کا محاصرہ کر لیا تھا جو ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ 4- اس رعب کی وجہ سے ہی انہوں نے جلاوطنی پر آمادگی کا اظہار کیا، ورنہ عبداللہ بن ابی (رئیس المنافقین) اور دیگر لوگوں نے انہیں پیغامات بھیجے تھے کہ تم مسلمانوں کے سامنے جھکنا نہیں، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو یہ خصوصی وصف عطا فرمایا تھا کہ دشمن ایک مہینے کی مسافت پر آپ (ﷺ) سے مرعوب ہو جاتا تھا۔ اس لیے سخت دہشت اور گھبراہٹ ان پر طاری ہوگئی۔ اور تمام تر اسباب ووسائل کے باوجود انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور صرف یہ شرط مسلمانوں سے منوائی کہ جتنا سامان وہ لاد کر لے جاسکتے ہیں انہیں لے جانے کی اجازت ہو، چنانچہ اس اجازت کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور شہتیر تک اکھیڑ ڈالے تاکہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ 5- یعنی جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب جلا وطنی ناگزیر ہے تو انہوں نے دوران محاصرہ اندر سے اپنے گھروں کو برباد کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے بھی کام کے نہ رہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ سامان لے جانے کی اجازت سے پورا فائدہ اٹھانے کے لیے وہ اپنے اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کر لے جاسکتے تھے، اپنے گھر ادھیڑ ادھیڑ کر وہ سامان انہوں نے اونٹوں پر رکھ لیا۔ 6- باہر سے مسلمان ان کے گھروں کو برباد کرتے رہے تاکہ ان پر گرفت آسان ہو جائے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ادھیڑے ہوئے گھروں سے بقیہ سامان نکالنے اور حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مزید تخریب سے کام لینا پڑا۔ 7- کہ کس طرح اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈالا۔ دراں حالیکہ وہ ایک نہایت طاقت ور اور باوسائل قبیلہ تھا، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت عمل ختم ہوگئی اور اللہ نے اپنے مواخذے کے شکنجے میں کسنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر ان کی اپنی طاقت اور وسائل ان کے کام آئے نہ دیگر اعوان وانصار ان کی کچھ مدد کرسکے۔