يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اے ایمان والو! جب تمہیں کہا جائے کہ مجلسوں [١٢] میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھو اللہ تمہیں کشادگی [١٣] بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ [١٤] (کر چلے) جاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند [١٥] کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے
1- اس میں مسلمانوں کو مجلس کے آداب بتلائے جارہے ہیں۔ مجلس کا لفظ عام ہے، جو ہر اس مجلس کو شامل ہے، جس میں مسلمان خیر اور اجر کے حصول کے لیے جمع ہوں، وعظ ونصیحت کی مجلس ہو یا جمعہ کی مجلس ہو۔ (تفسیر القرطبی) (کھل کر بیٹھو) کا مطلب ہے کہ مجلس کا دائرہ وسیع رکھو تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ رہے۔ دائرہ تنگ مت رکھو کہ بعد میں آنے والے کو کھڑا رہنا پڑے یا کسی بیٹھے ہوئے کو اٹھاکر اس کی جگہ وہ بیٹھے کہ یہ دونوں باتیں ناشائستہ ہیں۔ چنانچہ نبی (ﷺ) نے بھی فرمایا ”کوئی شخص، کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھے، اس لیے مجلس کے دائرے کو فراخ اور وسیع کر لو“۔ (صحيح بخاری، كتاب الجمعة ، باب لا يقيم الرجل أخاه يوم الجمعة ويقعد في مكانه ، وصحيح مسلم ، كتاب السلام ، باب تحريم إقامة الإنسان من موضعه المباح الذي سبق إليه)۔ 2- یعنی اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں وسعت وفراخی عطا فرمائے گا یا جہاں بھی تم وسعت وفراخی کے طالب ہوگے ، مثلاً مکان میں، رزق میں، قبر میں۔ ہر جگہ تمہیں فراخی عطا فرمائے گا۔ 3- یعنی جہاد کے لیے، نماز کے لیے یا کسی بھی عمل خیر کے لیے۔ یا مطلب ہے کہ جب مجلس سے اٹھ کر جانے کو کہا جائے، تو فوراً چلے جاؤ۔ مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نبی (ﷺ) کی مجلس سے اٹھ کر جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس طرح بعض دفعہ ان لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی جو نبی (ﷺ) سے خلوت میں کوئی گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ 4- یعنی اہل ایمان کے درجے، غیر اہل ایمان پر اور اہل علم کے درجے اہل ایمان پر بلند فرمائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے ساتھ علوم دین سے واقفیت مزید رفع درجات کا باعث ہے۔