إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
بلاشبہ سرگوشی کرنا شیطان کا کام ہے تاکہ ان لوگوں کو غمزدہ بنادے جو ایمان لائے ہیں، حالانکہ اللہ کے اذن کے بغیر وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اور ایمان والوں کو تو اللہ پر ہی [١١] بھروسہ کرنا چاہئے۔
1- یعنی اثم وعدوان اور معصیت رسول (ﷺ) پر مبنی سرگوشیاں یہ شیطانی کام ہیں، کیونکہ شیطان ہی ان پر آمادہ کرتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے سے مومنوں کو غم وحزن میں مبتلا کرے۔ 2- لیکن یہ سرگوشیاں اور شیطانی حرکتیں، مومنوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں الا یہ کہ اللہ کی مشیت ہو اس لیے تم اپنے دشمنوں کی ان اوچھی حرکتوں سے پریشان نہ ہوا کرو۔ بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو، اس لیے کہ تمام معاملات کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے، نہ کہ یہود اور منافقین، جو تمہیں تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں۔ سرگوشی کے سلسلے میں ہی مسلمانوں کو ایک اخلاقی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ جب تم تین آدمی اکٹھے ہو، تو اپنے میں سے ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں، کیونکہ یہ طریقہ اس ایک آدمی کو غم میں ڈال دے گا۔ (صحيح بخاری ، كتاب الاستئذان ، باب إذا كانوا أكثر من ثلاثة فلا بأس بالمسارة والمناجاة ، وصحيح مسلم كتاب السلام ، باب تحريم مناجاة الاثنين دون الثالث بغير رضاه) البتہ اس کی رضامندی اور اجازت سے ایسا کرنا جائز ہے۔ کیونکہ اس صورت میں دو آدمیوں کا سرگوشی کرنا، کسی کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔