سورة الحديد - آیت 19

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے پروردگار کے ہاں صدیق [٣٢] اور شہید [٣٣] ہیں انہیں (اپنے اپنے اعمال کے مطابق) اجر بھی ملے گا اور روشنی [٣٤] بھی۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلا دیا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بعض مفسرین نے یہاں وقف کیا ہے۔ اور آگے وَالشُّهَدَاءُ کو الگ جملہ قرار دیا ہے صدیقیت کمال ایمان اور کمال صدق و صفا کا نام ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ (آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ ہی کی تلاش اور کوشش میں رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے (متفق عليه ، مشكاة ، كتاب الآداب ، باب حفظ اللسان) ایک اور حدیث میں صدیقین کا وہ مقام بیان کیا گیا ہے جو جنت میں انہیں حاصل ہوگا۔ فرمایا ”جنتی، اپنے سے اوپر کے بالاخانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے، جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یامغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو، یعنی ان کے درمیان درجات کا اتنا فرق ہوگا“، صحابہ نےپوچھا: یہ انبیاء کے درجات ہوں گے جن کو دوسرے حاصل نہیں کر سکیں گے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی تصدیق کی“۔(صحيح بخاری، كتاب بدء الخلق ، باب ما جاء في صفة الجنة وأنها مخلوقة) یعنی ایمان اور تصدیقی کا حق ادا کیا۔ (فتح الباری)۔