أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کے لئے ایسا وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے، اس سے ان کے دل پسیج [٢٨] جائیں؟اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے [٢٩] اور (آج) ان میں سے اکثر فاسق ہیں
1- خطاب اہل ایمان کو ہے۔ اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مزید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے۔ خشوع کے معنی ہیں، دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا، حق سے مراد قرآن کریم ہے۔ 2- جیسے یہود ونصاریٰ ہیں۔ یعنی تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔ 3- چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کر دی، اس کے عوض دنیاکا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا، اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی اور ان کو اپنا رب بنا لیا،مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم یہ کام مت کرو ورنہ تمہارے دل بھی سخت ہو جائیں گے اور پھر یہی کام جو ان پر لعنت الٰہی کا سبب بنے، تمہیں اچھے لگیں گے۔ 4- یعنی ان کے دل فاسد اوراعمال باطل ہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ نےفرمایا: ﴿فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ﴾ (المائدة: 13)۔