نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَ
ہم نے اس درخت کو یاددہانی کا ذریعہ اور مسافروں [٣٤] کے فائدہ کی چیز بنادیا ہے
1- کہ اس کے اثرات اور فوائد حیرت انگیز ہیں اور دنیاکی بےشمار چیزوں کی تیاری کے لیے اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو ہماری قدرت عظیمہ کی نشانی ہے، پھر ہم نے جس طرح دنیا میں یہ آگ پیدا کی ہے، ہم آخرت میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ جو اس سے 69 درجہ حرارت میں زیادہ ہو گی۔ (كَمَا فِي الْحَدِيثِ)۔ 2- مُقْوِينَ، مُقْوٍ کی جمع ہے، قَوَاءٌ یعنی خالی صحرا میں داخل ہونے والا، مراد مسافر ہے۔ یعنی مسافر صحراؤں اور جنگلوں میں ان درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس سے روشنی، گرمی اور ایندھن حاصل کرتے ہیں۔ بعض نے مُقْوٍ سے وہ فقرا مراد لیے ہیں جو بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ ہوں۔ بعض نے اس کی معنی مُسْتَمْتِعِينَ (فائدہ اٹھانے والے) کیے ہیں۔ اس میں امیر ، غریب، مقیم اور مسافر سب آ جاتے ہیں اور سب ہی آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے حدیث میں جن تین چیزوں کو عام رکھنے کا اوران سے کسی کو نہ روکنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں پانی اورگھاس کے علاوہ آگ بھی ہے، (أبو داود، كتاب البيوع، باب في منع الماء ، وسنن ابن ماجہ، كتاب الرهون، باب المسلمون شركاء في ثلاث) امام ابن کثیر نے اس مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے۔