وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا
اور یتیموں کو ان کے مال واپس کردو۔ اور ان کی کسی اچھی چیز کے بدلے انہیں گھٹیا چیز نہ دو، نہ ہی ان کا مال اپنے مال میں ملا کر خود اس سے کھانے کی کوشش کرو۔ یہ بڑی گناہ کی [٤] بات ہے
1- یتیم جب بالغ اور باشعورہو جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو۔ خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو۔ ان گھٹیا چیزوں کو خبیث (ناپاک) اور عمدہ چیزوں کو طیب (پاک) سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ کر دیا کہ اس طرح بدلایا گیا مال، جو اگرچہ اصل میں تو طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کر دی اور وہ اب طیب نہیں رہا،بلکہ تمہارےحق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔ اسی طرح بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کرکھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔