وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ
اور ان سے ان کے مہمانوں کا مطالبہ کرنے لگے تو ہم نے ان کی آنکھوں کو بے نور [٢٧] بنا دیا (اور کہا) اب میرے عذاب اور میری تنبیہ کا مزا چکھو
1- یا بہلایا یا مانگا لوط (عليہ السلام) سے ان کے مہمانوں کو۔ مطلب یہ ہے کہ جب لوط (عليہ السلام) کی قوم کو معلوم ہوا کہ چند خوبر ونوجوان لوط (عليہ السلام) کے ہاں آئے ہیں (جو دراصل فرشتے تھے اور ان کو عذاب دینے کے لیے ہی آئے تھے) تو انہوں نے حضرت لوط (عليہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم اپنے بگڑے ہوئے ذوق کی ان سے تسکین کریں۔ 2- کہتے ہیں کہ یہ فرشتے جبرائیل میکائل اور اسرافیل (عليہ السلام) تھے۔ جب انہوں نے بدفعلی کی نیت سے فرشتوں (مہمانوں) کو لینے پر زیادہ اصرار کیا تو جبرائیل (عليہ السلام) نے اپنے پر کا ایک حصہ انہیں مارا، جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے ہی باہر نکل آئے، بعض کہتے ہیں ، صرف آنکھوں کی بصارت زائل ہوئی، بہرحال عذاب عام سے پہلے یہ عذاب خاص ان لوگوں کو پہنچا جو حضرت لوط (عليہ السلام) کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ اور آنکھوں سے یا بینائی سے محروم ہو کر گھر پہنچے۔ اور پھر صبح اس عذاب عام میں تباہ ہو گئے جو پوری قوم کے لیے آیا (تفسیر ابن کثیر)۔