لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
(مسلمانو)! تمہیں اپنے اموال اور اپنی [١٨٥] جانوں میں آزمائش پیش آ کے رہے گی۔ نیز تمہیں ان لوگوں سے جو تم سے پہلے کتاب [١٨٦] دیئے گئے تھے نیز مشرکین سے بھی بہت سی تکلیف دہ باتیں سننا ہوں گی۔ اور اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے ہو تو بلاشبہ یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے
1- اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی (ﷺ) حضرت سعد بن عبادۃ (رضي الله عنه) کی عیادت کے لئے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبداللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (ﷺ) کی سواری سے جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ (ﷺ) نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبداللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ (ﷺ) کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہو جائے، آپ (ﷺ) نے ان سب کو خاموش کرایا، پھر آپ (ﷺ) حضرت سعد (رضي الله عنه) کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن ابی یہ باتیں اس لئے کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندگان کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ (ﷺ) کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض وعناد کا مظہر ہیں۔ اس لئے آپ۔ درگزر ہی سے کام لیں۔ (صحيح البخاري كتاب التفسير ملخصًا) 2- اہل کتاب سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (ﷺ) ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن وتشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبداللہ بن ابی بھی آپ (ﷺ) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی کہ آپ (ﷺ) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف سب وشتم کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضرورت تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفوو درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیان حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دوچار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر)