وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ اس کے دل میں وسوسہ گزرتا [١٨] ہے، ہم تو اسے بھی جانتے ہیں اور اس کے گلے کی رگ سے بھی زیادہ اسکے قریب [١٩] ہیں۔
1- یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے، وہ سب ہم جانتے ہیں۔ وسوسہ، دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سےدل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پرگرفت نہیں فرمائے گا۔ جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے“۔ (البخاری كتاب الإيمان باب إذا حنث ناسيا في الأيمان مسلم، باب تجاوز الله عن حديث النفس والخواطر بالقلب إذا لم تستقر)۔ 2- وَرِيدٌ شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے۔ اس قرب سے مراد قرب علمی ہے یعنی علم کے لحاظ سے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ کے معنی ہیں يَأْخُذَانِ وَيُثَبّتَانِ۔ امام شوکانی نے اس کا مطلب بیان کیا ہے کہ ہم انسان کے تمام احوال کو جانتے ہیں، بغیر اس کے کہ ہم ان فرشتوں کےمحتاج ہوں جن کو ہم نے انسان کے اعمال واقوال لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے، یہ فرشتے تو ہم نے صرف اتمام حجت کے لئے مقرر کیے ہیں، دو فرشتوں سےمراد بعض کے نزدیک ایک نیکی اور دوسرا بدی لکھنےکے لئے۔ اور بعض کےنزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح القدیر)۔