يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے پرہیز [١٩] کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور کسی کی عیب [٢٠] جوئی نہ کرو، نہ ہی تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت [٢١] کرے، کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم تو خود اس کام کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرتے ہو۔ اللہ ہر وقت توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
1- ظَنَّ کے معنی ہیں گمان کرنا۔ مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بےاصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لئے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے۔ اور حدیث میں اس کو أَكْذَبُ الْحَدِيثِ (سب سے بڑا جھوٹ) کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے [إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ ] (البخاری، كتاب الأدب ، باب ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ ﴾ - صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم الظن والتجسس) ورنہ فسق وفجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بدگمانی رکھنا، یہ وہ بدگمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے ( إِنَّ الظَّنَّ الْقَبِيحَ بِمَنْ ظَاهِرُهُ الْخَيْرُ، لا يَجُوزُ، وَإِنَّهُ لا حَرَجَ فِي الظَّنِّ الْقَبِيحِ بِمَنْ ظَاهِرُه الْقَبِيحُ ) (القرطبی)۔ 2- یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے، یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے۔ بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی، کوتاہی تمہارے علم میں آجائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو، بلکہ جستجو کرکے عیب تلاش کرو۔ آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے۔ اسلام نے بھی تجسس سے روک کر انسان کی حریت اور آزادی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک، جب تک وہ کھلے عام بے حیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لئے ایذا کا باعث نہ ہو۔ مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن وسکون برباد ہو گیا ہے 3- غیبت کا مطلب یہ ہےکہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں تو وہ بہتان ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں۔ 4- یعنی کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ مردار بھائی کا گوشت کھانا تو کوئی پسند نہیں کرتا۔ لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔