طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ۚ فَإِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ
(چاہئے تو یہ تھا کہ وہ نبی کی) اطاعت کرتے اور بھلی بات کہتے۔ پھر جب (جہاد کا) معاملہ طے پا گیا تو اگر وہ اللہ سے (کئے ہوئے عہد میں) سچے رہتے تو یہ ان کے لئے [٢٥] بہتر تھا۔
1- یعنی حکم جہاد سے گھبرانے کے بجائے ان کے لئے بہتر تھا کہ وہ سمع وطاعت کا مظاہرہ کرتے اور نبی (ﷺ)کی بابت، گستاخی کے بجائے، اچھی بات کہتے۔ یہ أَوْلَى بمعنی أَجْدَرُ (بہتر) ہے، جسے ابن کثیرنے اختیار کیا ہے۔ بعض نے اولیٰ کو تہدید ووعید کا کلمہ یعنی بددعا قرار دیا ہے۔( مَعْنَاهُ قَارَبَهُ مَا يُهْلِكُهُ) (ان کی ہلاکت قریب ہے) مطلب ہے، ان کی بزدلی اور نفاق ان کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔ اس اعتبار سے ﴿طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ﴾ جملہ مستانفہ ہوگا اور اس کی خبر محذوف ہوگی خَيْرٌ لَّكُمْ (فتح القدیر، ایسر التفاسیر)۔ 2- یعنی جہاد کی تیاری مکمل ہو جائے اور وقت جہاد آجائے۔ 3- یعنی اگر اب بھی نفاق چھوڑ کر، اپنی نیت اللہ کے لئے خالص کر لیں، یا رسول کے سامنے رسول (ﷺ)کے ساتھ لڑنے کا جو عہد کرتے ہیں، اس میں اللہ سے سچے رہیں۔ 4- یعنی نفاق اور مخالفت کے مقابلے میں توبہ واخلاص کا مظاہرہ بہتر ہے۔