فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
پھر جب انہوں نے اس (عذاب کو) بادل (کی صورت میں) اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو کہنے لگے : ’’یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا‘‘ بلکہ یہ وہ چیز تھی جس کے لئے تم جلدی [٣٧] مچا رہے تھے یعنی ایسی آندھی جس میں دردناک عذاب تھا۔
1- عرصہ دراز سے ان کے ہاں بارش نہیں ہوئی تھی، امنڈتے بادل دیکھ کر خوش ہوئے کہ اب بارش ہوگی۔ بادل کو عارض اس لئے کہا ہے کہ بادل عرض آسمان پر ظاہر ہوتا ہے۔ 2- یہ حضرت ہود (عليہ السلام) نے انہیں کہا کہ یہ محض بادل نہیں ہے، جیسے تم سمجھ رہے ہو۔ بلکہ یہ وہ عذاب ہے۔ جسے تم جلد لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 3- یعنی وہ ہوا ، جس سے اس قوم کی ہلاکت ہوئی، ان بادلوں سے ہی اٹھی اور نکلی اور اللہ کی مشیت سے ان کو اور ان کی ہر چیز کو تباہ کر گئی۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے رسول اللہ (ﷺ) سےپوچھا کہ لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی، لیکن آپ (ﷺ) کے چہرے پر اس کے برعکس تشویش کے آثار نظر آتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نےفرمایا : عائشہ (رضی الله عنہا) اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بادل میں عذاب نہیں ہوگا، جب کہ ایک قوم ہوا کے عذاب سے ہی ہلاک کر دی گئی، اس قوم نے بھی بادل دیکھ کر کہا تھا یہ بادل ہےجو ہم پر بارش برسائے گا۔ (البخاری، تفسير سورة الأحقاف، مسلم، كتاب صلاة الاستسقاء باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم والفرح بالمطر) ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب باد تند چلتی تو آپ (ﷺ) یہ دعا پڑھتے[ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِه ] اور جب آسمان پر بادل گہرے ہو جاتے تو آپ (ﷺ) کا رنگ متغیر ہو جاتا اور خوف کی سی ایک کیفیت آپ (ﷺ) پر طاری ہو جاتی جس سے آپ (ﷺ) بے چین رہتے، کبھی باہر نکلتے، کبھی اندر داخل ہوتے، کبھی آگے ہوتے اور کبھی پیچھے پھر بارش ہو جاتی تو آپ (ﷺ) اطمینان کا سانس لیتے۔ (صحیح مسلم، باب مذکور)۔