وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
یہ لوگ کہتے ہیں۔ ’’یہ بس ہماری دنیا ہی زندگی ہے۔ یہاں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی [٣٥] ہمیں ہلاک کرتا ہے‘‘ حالانکہ ان باتوں کا انہیں کچھ علم نہیں وہ محض گمان [٣٦] سے یہ باتیں کرتے ہیں۔
1- یعنی غور وفکر نہیں کرتے تاکہ حقیقت حال تم پر واضح اور آشکارا ہوجائے۔ 2- یہ دہریہ اور ان کے ہم نوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی پہلی اور آخری زندگی ہے، اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت و حیات کا سلسلہ، محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے۔ جیسے فلاسفہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت پر لوٹ آتی ہے۔ اور یہ سلسلہ، بغیر کسی صانع اور مدبر کے، از خود یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا، نہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔ یہ گروہ دوریہ کہلاتا ہے (ابن کثیر) ظاہر بات ہے، یہ نظریہ، اسے عقل بھی قبول نہیں کرتی اور نقل کے بھی خلاف ہے۔ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ”ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے۔ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے (یعنی اس کی طرف افعال کی نسبت کرکے، اسے برا کہتا ہے) حالانکہ (زمانہ بجائے خود کوئی چیز نہیں) میں خود زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں، رات دن بھی میں ہی پھیرتا ہوں“۔ (البخاری، تفسير سورة الجاثية، مسلم كتاب الألفاظ من الأدب، باب النهي عن سب الدهر)۔