أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بھلا آپ نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو الٰہ [٣٣] بنا رکھا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود [٣٤] اسے گمراہ کردیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے سکے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟
1- پس وہ اسی کو اچھا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس اچھا اور اسی کو برا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس برا قرار دیتا ہے۔ یعنی اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی نفسانی خواہش کو ترجیح دیتا یا اپنی عقل کو اہمیت دیتا ہے۔ حالانکہ عقل بھی ماحول سے متاثر یا مفادات کی اسیر ہوکر، خواہش نفس کی طرح، غلط فیصلہ کرسکتی ہے۔ ایک معنی اس کے یہ کیے گئے ہیں، جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت اور برہان کے بغیر اپنی مرضی کے دین کو اختیار کرتا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے ایسا شخص مراد ہے جو پتھر کو پوجتا تھا، جب اسے زیادہ خوب صورت پتھر مل جاتا، تو وہ پہلے پتھر کو پھینک کر دوسرے کو معبود بنالیتا۔ (فتح القدیر)۔ 2- یعنی بلوغ علم اور قیام حجت کے باوجود، وہ گمراہی ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ جیسے بہت سے پندار علم میں مبتلا گمراہ اہل علم کا حال ہے۔ ہوتے وہ گمراہ ہیں، موقف ان کا بے بنیاد ہوتا ہے۔ لیکن (ہم چوما دیگرے نیست) کے گھمنڈ میں وہ اپنے (دلائل) کو ایسا سمجھتے ہیں گویا آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں۔ اور یوں علم و فہم رکھنے کے باوجود وہ گمراہ ہی نہیں ہوتے، دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ (نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذَا الْعلمِ الضَّالِّ ، وَالْفَهْمِ السَّقيِمِ وَالْعَقْلِ الزَّائِغِ )۔ 3- جس سے اس کے کان وعظ و نصیحت سننےسے اور اس کا دل ہدایت کے سمجھنے سے محروم ہو گیا۔ 4- چنانچہ وہ حق کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔ 5- جیسے فرمایا ﴿مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلا هَادِيَ لَهُ وَيَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾ (الأعراف: 186)۔